Islamic Articles
Title: Nematon ki Qadar Kijiye
Total Records: 1 - Total Pages: 1 - Current Page: 1

اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار ہیں، اگر کوئی شخص صرف انہیں گننا ہی چاہے تو گن نہیں سکتا ۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
”اگر تم اﷲ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکو گے “(ابراہیم :34) ۔دوسری جگہ فرمان الہی ہے : ” پس تم ( اے انسانو اور جنّو ! ) اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاو¿ گے“ ۔ ( رحمن: 16) ۔ رب کی نعمتیں شکر ادا کرنے سے بڑھتی بھی ہیں اور ہمیشہ قائم بھی رہتی ہیں جبکہ ناشکری کرنے سے کم ہوجاتی ہیں بلکہ ختم ہوجاتی ہیں ۔ جیسا کہ رب العالمین کا فرمان ہے :
” اگر تم نے شکر بجا لایا تو میں تمہیں زیادہ دوں گا ، اور اگر تم نا شکری کرو گے تو یاد رکھو کہ بے شک میرا عذاب سخت ہوتا ہے “۔( ابراہیم :7)حضرت امام سفیان ثوری اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ شکر سے وہ تمہیں مزید طاقت اور بندگی کی توفیق دے گا اور اگر ناشکری کروگے تو وہ نعمتیں تم سے چھین لے گا اور سخت عذاب میں مبتلا کردے گا ۔
اﷲ رب العالمین نے قرآن مجید میں کئی قوموں اور اشخاص کی نا شکری کے واقعات بیان کرکے ان کی بربادی کی داستانیں سنائی ہیں، تاکہ دنیائے انسانیت ان واقعات سے عبرت حاصل کرے ، انہی میں دو دوستوں کا واقعہ ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے سورہ کہف میں بیان کیا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے :
ایک قرآنی واقعہ
”( اے محمدا ! ) آپ ان کے سامنے دو آدمی کی مثال پیش کیجئے ، دونوں میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ دیئے تھے ، اور ان دونوں باغوں کو کھجوروں کے درختوں سے گھیر دیا تھا اور دونوں کے درمیان کھیتی رکھ دی تھی ۔ دونوں باغوں نے پھل دیئے اور دونوں باغوں نے پھل دینے میں کمی نہیں کی ، اور دونوں باغوں کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کردی تھی اور اس کے آس پاس دوسرے میوہ جات بھی ہوتے تھے ۔ تو اس نے اپنے ساتھی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں تم سے مال میں زیادہ ہوں اور جاہ وحشم کے اعتبار سے بھی تم سے زیادہ عزت والا ہوں۔“
( کہف :32۔34)
مال اﷲ تعالیٰ کی ایک اہم نعمت ہے ، جب کسی بندہ¿ مومن کو یہ نعمت عطاہوتی ہے تو وہ اس موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی آخرت آباد کرلیتا ہے ۔
اسی لیے رسول اکرم انے اس شخص کو قابل رشک قرار دیا جسے اﷲ نے مال عطا کیا اور وہ اس کی راہ میں دن رات بے دریغ خرچ کرتا رہتا ہے ۔( متفق علیہ )
لیکن یہی مال جب کسی فاسق وفاجر شخص کے پاس جمع ہوجاتا ہے تو اس سے اس کے فسق وفجور اور تکبر وغرور میں اور اضافہ ہوجاتا ہے ۔اورتجربہ بھی یہی کہتاہے کہ مال ایسی شئی ہے جو کمزور کو طاقتور ، مجبور کو مختار ، محکوم کو حاکم ، اور کبھی کبھی مظلوم کو ظالم بنادیتی ہے ، اسی حقیقت کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ”بے شک آدمی سرکش بن جاتا ہے جب دیکھتا ہے کہ وہ دولت مند ہوگیا “۔ ( علق :7)
یہی مال ودولت اور اقتدار جب فرعون کو حاصل ہوتا ہے تو وہ اپنی خدائی کا اعلان کرتے ہوئے نعرہ لگاتا ہے کہ : ” میںہی تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ،،( نازعات : ۴۲)اور یہی دولت کا نشہ جب نمرود پر چڑھتا ہے تو اعلان کرتا ہے : ”میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں “( بقرہ :258)اور یہی دولت کے خزانے جب قارون کے گھر میں اپنے ڈیرے ڈالتے ہیں تو بدمست ہوکر پکار اٹھتا ہے : ”یہ مال وجائیداد مجھے ( رب کی مہربانی سے نہیں ) اپنے علم اور صلاحیت سے ملی ہے “۔ ( قصص :78)
جس وقت انسان کے پاس مال جمع ہوجاتا ہے ، اس کے پاس چڑھتے سورج کی پرستش کرنے والے لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہوجاتی ہے ، جو اس کے ہر عیب کو ہنر بنا کر اس کے سامنے پیش کرتی ہے ۔ اور سچ ہے کہ :
جن کے آنگن میں امیری کا شجر اُگتا ہے
ان کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے
اس شخص کے ساتھ بھی یہی سب کچھ پیش آیا اور وہ نادان اپنے مال اور جاہ وحشم کو باعثِ عزت سمجھ کر اترانے لگا ، روزانہ اس سے ملنے والوںکی بھیڑ کو دیکھ کر پھولے نہیں سماتا ، حالانکہ وہ اس حقیقت کو وہ بھول گیا کہ :

سبھی ہنستے ہوئے ملتے ہیں جب تک چار پیسے ہیں

نہیں پوچھے گا کوئی مفلسی، میں آپ کیسے ہیں ؟

دولت سعادت کی علامت نہیں
اس نے صرف اسی پر بس نہیں کیا ، بلکہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور قیامت کے انکار پر بھی اُتر آیا ۔فرمان باری تعالیٰ ہے :
”وہ اپنے باغ میں اس حال میں داخل ہوا کہ وہ اپنے حق میں ظلم کرنے والا تھا ۔ کہا کہ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ باغ کبھی تباہ ہوجائے گا اور مجھے یقین نہیں کہ قیامت برپا ہوگی ، اور اگر ( بالفرض )اپنے رب کے پاس لوٹ کرگیا بھی تو میں اس باغ سے زیادہ اچھا بدلہ پاوں گا ۔
اپنے باغ کی سرسبزی اور شادابی کو دیکھ کر اسے یہ خبط ہوگیا کہ یہ باغ سدا پھل دیتا رہے گا ، یہ نہریں کبھی بھی خشک نہیں ہوں گی،اور قیامت بس ع
” دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ،،
کفر کی چھ قسمیں ہیں ، ان میں سے ایک قسم ”کفر شک ،،ہے ، انسان ان تمام غیب کی باتوں کے متعلق ، یا ان میں کسی ایک بات کے متعلق شک میں مبتلا ہوجائے جن کا تعلق ایمانیات سے ہے ۔
نیز وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہوگیا کہ اگر قیامت بالفرض قائم بھی ہوگئی تو وہاں بھی کامیابی میرے قدم چومے گی، اس لیے کہ اس دنیا میں اﷲ نے مجھے سب کچھ دیا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ اﷲ مجھ سے راضی اور خوش ہو۔ حالانکہ دنیوی مال ومتاع حق یا باطل کی دلیل نہیں ہے ، یہ تو اﷲ عزوجل، مومن یا کافر جسے چاہے عطا کرتا ہے ، بلکہ اس کا فرمان ہے :” اگر ایسا نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی جماعت ہوجائیں گے، تو ہم رحمن ( اﷲ ) کا انکار کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنادیتے، اور سیڑھیاں بھی ، جن کے ذریعہ وہ بالا خانوں پر چڑھتے ہیں، اور ان کے گھروں کے دروازے بھی، اور تخت بھی جن پر وہ ٹیک لگاتے ، اور سونے کے بنے دیگر اسباب زینت ، یہ تمام چیزیں محض دنیوی زندگی کے فائدے ہیں، اور آخرت کی نعمتیں آپ کے رب کے پاس، اس سے ڈرنے والوں کے لیے ہیں۔“ ( زخرف : 33۔35)
رسول اکرم اکا ارشاد ہے : ” اگر دنیا کی قدر اﷲ کے پاس مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی، تو کسی کافر کو پینے کےلئے ایک گھونٹ پانی بھی نہیں ملتا “۔( ترمذی )
مومن دوست کی نصیحت
”اسکے مومن دوست نے اسے ہمدردی اور محبت سے نصیحت کرتے ہوئے اﷲ کے عذاب سے ڈرایا اور کہا : ”اس سے اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران کہا : کیا تم نے اس ذات باری تعالیٰ کا انکار کردیا جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے ، پھر تمہیں ایک اچھا بھلا مرد بنادیا ، لیکن میرا عقیدہ ہے کہ اﷲ ہی میرا رب ہے ، اور میں اپنے رب کا کسی کو شریک نہیں بناتا ہوں ۔ اور تم جب باغ میں داخل ہوئے تھے تو کیوں نہیں کہا تھا کہ اﷲ نے جو چاہا ہے وہ ہوا ہے ، اﷲ کی مشیت کے بغیر کوئی قوت حاصل نہیں ہوسکتی ۔ اگر تم مجھے اپنے آپ سے مال اور اولاد میں کم تر پاتے ہو ، تو امید ہے کہ میرا رب مجھے تمہارے باغ سے بہتر باغ دے گا، اور تمہارے باغ پر کوئی آسمانی عذاب بھیج دے گا ، پھر وہ بے پودے والا چکنا میدان ہوجائے گا، یا اس کا پانی زمین کی تہہ میں چلا جائے، پھر تم اسے حاصل نہیں کرسکو گے۔“ ( کہف :37۔41)
زوالِ نعمت کے بعد توبہ
بالآخر اس شخص کے باغوں کا وہی حشر ہوا جو ہر متکبر ومغرور اور بد مست شخص کا ہوتا ہے، اس کے باغوں کو راتوں رات تیز وتند آندھی اور سیلاب نے زمین دوز کردیا ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
”اور اس کے تمام پھلوں کو آفت نے گھیر لیا ، پھر وہ ان پھلوں پر جتنا مال خرچ کیا تھا ، اس پر کف ِ افسوس ملنے لگا ، اور اس کے باغ کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے چھپروں سمیت گرا پڑا تھا ، اور وہ شخص کہنے لگا : اے کاش ! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہوتا ، اور اﷲ کے سوا اس کا کوئی ایسا گروہ نہیں تھا جو اس کی مدد کرتا، اور نہ اس میں انتقام لینے کی قدرت تھی ۔ یہاں یہ بات ثابت ہوگئی کہ مدد کرنا اﷲ برحق کا کام ہے، وہ بدلہ اور انجام کے اعتبار سے سب سے بہتر ہے “۔ ( کہف : 42 / 44)
انسان کو نعمتوں کے زوال سے ڈرتے رہنا چاہئے ، رسول اکرم ا ہمیشہ نعمتوں کے زوال سے رب العالمین کی حفاظت طلب کرتے ، اور یہ دعا فرماتے رہتے : ” اے اﷲ ! میں تیری نعمت کے زوال سے، اور تیری عافیت کے بدل جانے سے ، اور تیرے اچانک انتقام سے ، اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے ، تیری حفاظت طلب کرتا ہوں “۔ ( مسلم )
نعمتوں کے چھن جانے اور اﷲ کے عذاب کے آجانے کے بعد آدمی چاہے جس قدر بھی توبہ واستغفار کرے اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ یہ تو کافروں کا طریقہ ہے کہ جب وہ عذاب کو دیکھ لیتے ہیں تو پھر انہیں توبہ کا خیال آجاتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے فرعون کے متعلق یہی بیان فرمایا کہ جس وقت وہ ڈوبنے لگا تو وہ بھی اپنے مومن ومسلمان ہونے کی دہائی دینے لگا : ”جب فرعون ڈوبنے لگا توکہا : میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے، جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے، اور اب میں فرمانبرداروں میں سے ہوں ۔ ( اسے جواب دیا گیا ) کیا اب ایمان لائے ہو؟ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتے رہے اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھے آج تیرے جسم کو ہم پانی سے نکال لیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لیے نشان عبرت بن جائے، اور بہت سے لوگ ہماری آیتوں سے غافل رہتے ہیں“۔ ( یونس :۰۹۔۲۹)
جس وقت وہ شخص کھڑا کھڑا برباد ہوگیا تو روئے زمین پر کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو اس کی مدد کے لیے آگے بڑھتا، لوگوں کا وہ جم غفیر اس سے اس طرح چھٹ گیا جیسے سورج کی شعاعوں سے رات کا اندھیرا کافور ہوجاتا ہے۔ اوریہی ایک تلخ حقیقت ہے کہ :
بوقت تنگ دستی، آشنا بیگانہ ہوتا ہے
صراحی جب ہوئی خالی جدا پیمانہ ہوتا ہے
عبرت آموز واقعات
امام ابن جوزی رحمة اللہ علیہ نے ایک نہایت ہی سبق آموز واقعہ بیان گیا ہے : ” اصفہان کا ایک بہت بڑا رئیس اپنی بیگم کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا ہوا تھا ، دسترخوان اﷲ کی نعمتوں سے بھرا ہوا تھا ، اتنے میں ایک فقیر نے یہ صدا لگائی کہ :”اﷲ کے نام پر کچھ کھانے کے لیے دے دو “ ۔ اس شخص نے اپنی بیوی کو حکم دیا کہ سارا دستر خوان اس فقیر کی جھولی میں ڈال دو ۔ عورت نے حکم کی تعمیل کی، جس وقت اس نے اس فقیر کا چہرہ دیکھا تو دھاڑیں مارکر رونے لگی ۔ اس کے شوہر نے اس سے پوچھا : جانِ من ! آپ کو ہوا کیا ہے ؟ اس نے بتلایا کہ : ” جو شخص فقیر بن کر ہمارے گھر پر دستک دے رہا تھا ، وہ چند سال پہلے اس شہر کا سب سے بڑا مالدار اور ہماری اس کوٹھی کا مالک اور میرا سابق شوہر تھا، چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہم دونوں دسترخوان پر ایسے ہی بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے جیسا کہ آج کھارہے تھے ، اتنے میں ایک فقیر نے صدا لگائی کہ:” میں دو دن سے بھوکا ہوں اﷲ کے نام پر کھانا دے دو “یہ شخص دسترخوان سے اٹھا اور اس فقیر کی اس قدر پٹائی کی کہ اسے لہولہان کردیا ، نہ جانے اس فقیر نے کیا بد دعا دی کہ اس کے حالات دگرگوں ہوگئے ، کاروبار ٹھپ ہوگیا، اور وہ شخص فقیر وقلاش ہوگیا ، اس نے مجھے بھی طلاق دے دی ، اس کے چند سال گذرنے کے بعد میں آپ کی زوجیت میں آگئی ۔ شوہر بیوی کی یہ باتیں سن کر کہنے لگا : بیگم ! کیا میں آپ کو اس سے زیادہ تعجب خیز بات نہ بتلاو¿ں ؟ اس نے کہا ضرور بتائیں ۔ کہنے لگا : ”جس فقیر کی آپ کے سابق شوہر نے پٹائی کی تھی وہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ میں ہی تھا “۔ ( کتاب العبر )
گردش زمانہ کا ایک عجیب نظارہ یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس بدمست مالدار کی ہرچیز ، مال ، کوٹھی ، حتیّٰ کہ بیوی بھی چھین کر اس شخص کو دے دیا جو فقیر بن کر اس کے گھر پر آیا تھا ، اور چند سال بعد پھر اﷲ تعالیٰ اس شخص کو فقیر بنا کر اسی کے در پر لے آیا ۔ واﷲ علی کل شی ءقدیر۔ اسی لیے کسی شاعر نے کہا :
نہ ہو مغرور دولت پر نہ مغرور عزت پر
نہ ہو مغرور طاقت پر نہ ہو مغرور صحت پر
کیونکہ یہ سب ” چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات “ والا معاملہ ہے۔
تاریخ ایسے عبرت آموز واقعات سے بھری پڑی ہے ، شرط ہے کہ انسان اس سے عبرت پکڑے ۔

خلفائے عباسیہ کا مشہور حکمران خلیفہ مہدی اپنے دربار میں تختِ خلافت پر متمکن تھا کہ حاجب نے ایک فریادی عورت کی اطلاع دی جو خلیفہ وقت سے ملنا چاہتی تھی، جب اجازت ملی وہ عورت خلیفہ کے سامنے پیش ہوئی، خلیفہ نے اس عورت پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالی جو دیکھنے میں بھکارن معلوم ہوتی تھی اور کہا : کیا فریاد لائی ہو؟ اس نے کہا : ” امیر المومنین میں آپ پر قرآن مجید کی صرف ایک آیت تلاوت کرنے کے لیے آئی ہوں ، اور وہ یہ آیت ہے :
” اور اﷲ ایک بستی (والوں ) کی مثال بیان کرتا ہے جو پُر امن اور پُرسکون تھی، اس کی روزی کشادگی کے ساتھ ہرجگہ سے آتی تھی، پھر اس نے اﷲ کی نعمتوں کی ناشکری کی، تو اﷲ نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے انہیں شدید بھوک اور خوف وہراس کا مزہ چکھایا “۔(نحل :112)
خلیفہ نے پوچھا : تو کون ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں بنو امیہ کے آخری حکمراں خلیفہ مروان بن محمد کی بیوہ ہوں ، ( جس کی حکومت اسپین وپرتگال سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی ) کل کی ملکہ اور آج کی بھکارن ۔ ہم نے اﷲ کی نعمتوں کی قدر نہیں کی ، جس کی وجہ سے آج ہمارا یہ حال ہواہے، اس لیے تمہیں اس بات کی نصیحت کرنے کے لیے آئی ہوں کہ کہیں انہی حرکتوں کی وجہ سے تمہارا حال ہم جیسا نہ ہوجائے “۔
خلیفہ مہدی آبدیدہ ہوگیا ،اور عبرت سے سر جھکالیا ، خادموں کو حکم دیا کہ اس عورت کو محل میں لے جائے اور اس کے ساتھ عزت واحترام کا سلوک کیا جائے ۔ ( العبر والتاریخ )
اﷲ تعالیٰ ہمیں اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور نعمتوں کے زوال سے اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین
BACK TO ISLAMIC ARTICLES

Random Post

Sponored Video

New Pages at Social Wall

New Profiles at Social Wall

Connect with us


Facebook

Twitter

Google +

RSS